Header ad

✍️ *حسن-جوہری*

 کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل

چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں


بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی

بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں



*بخدمت جناب سید باقر الحسینی، صدر انجمن امامیہ، سکردو، بلتستان* جناب سید علی رضوی صاحب 


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ


 *منجیِ عالمِ بشریت، فرزند و وصیِ رسولِ اکرمؐ کے میلادِ باسعادت کے موقع پر، جنابِ عالی کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں* ۔


جیسا کہ آپ جناب کے علم میں ہے، اس وقت غزہ سے پاراچنار تک عالمِ اسلام، بالخصوص شیعہ مومنین شدید آزمائشوں اور مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری جانب، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ہمارے عقائد و ایمان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کے باعث نوجوان نسل فکری و نظریاتی طور پر براہِ راست متاثر ہو رہی ہے۔


ایسے حالات میں، خطۂ بلتستان میں احکاماتِ الٰہی اور سیرتِ معصومین (علیہم السلام) کو بیان کرنے کے دو بڑے مواقع ہوتے ہیں:

1️⃣ *ماہِ محرم* – جو عزاداریِ امام حسینؑ اور فکرِ کربلا کو عام کرنے کا مہینہ ہے۔

2️⃣ *ماہِ شعبان* – جس میں مختلف محافلِ میلاد اور جشنِ ولادتِ معصومین (علیہم السلام) منعقد کیے جاتے ہیں۔


 *لیکن افسوس!*

 اس سال، تیرہ رجب سے شعرو شاعری، نعرہ بازی، اور غیر سنجیدہ تقاریر کا آغاز ہوا، جو اب تک جاری ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2010 سے محافلِ اہلِ بیتؑ کو ان کے اصل اہداف سے دور کرنے کی جو سازش نامحسوس انداز میں چل رہی تھی، وہ 2025 میں اپنے تکمیل کے قریب پہنچ چکی ہے!


 *اصولی طور پر، ان محافل میں* :

✅ عقائد پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات دیے جاتے۔

✅ موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں سیرتِ معصومین (علیہم السلام) کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کی جاتی۔


 *لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا!* 


اسی پسِ منظر میں، جب میں نے انجمن امامیہ کے لیٹر ہیڈ پر پندرہ شعبان کی رات بارہ بجے دعا برائے امامِ زمانہ (عج) کی اپیل دیکھی، تو چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اگرچہ ممکن ہے کہ ان گزارشات کا فوری اثر نہ ہو، لیکن جو کچھ میں لکھ رہا ہوں، وہ اللہ کے لکھاریوں کے ضبطِ تحریر میں ضرور شامل ہوگا۔


📌 *گزارشات برائے اصلاحِ احوال* 


1️⃣ محض ایک رات دعا کرنے کے بجائے، امامِ عصر (عج) سے قربت کے عملی اقدامات کیے جائیں۔


ہر مومن کو روزانہ پچاس آیاتِ قرآن پڑھ کر امامِ زمانہ (عج) کی بارگاہ میں ہدیہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔


2️⃣ دجال شناسی کے موضوع پر مفصل گفتگو کا اہتمام کیا جائے۔


تاکہ گلگت بلتستان اسمبلی میں موجود صیہونی اثر و رسوخ اور امریکی مفادات کے لیے کی جانے والی سودے بازی کو بے نقاب کیا جا سکے۔


3️⃣ الٰہی مجاہدین کے نام زندہ رکھے جائیں۔


سید حسن نصراللہ اور سید صفی اللہ جیسے شہداء کے بعد، نئی نسل میں ان کے ناموں کو رواج دیا جائے تاکہ ان کی قربانیوں کو فراموش نہ کیا جائے۔


4️⃣ عالمی سازشوں اور ان کے ممکنہ اثرات سے آگاہی دی جائے۔


ٹرمپ حکومت کے غزہ کو خالی کرانے کے بیانات کے تناظر میں، گلگت بلتستان پر ممکنہ سیاسی، اقتصادی اور سیاحتی اثرات پر روشنی ڈالی جائے۔


5️⃣ دینی شعائر اور علماء کرام کے خلاف سازشوں کا سدباب کیا جائے۔


جنسی مسائل کی آڑ میں دین، عمامہ اور روحانیت کو ہدفِ تنقید بنانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔


اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اکثر ناقدین وہی افراد ہیں جن پر انجمن امامیہ کا دستِ شفقت ہے! 2015شبیر سھام کے رپورٹ سے لیکر آج تک کے تمام میگااسکنڈلز پرتحقیقات کیاجاے تاکہ معاشرے میں موجود اصلی ناسوروں کے پہچان ممکن ھوسکیں 


6️⃣ محافلِ میلاد اور مجالسِ عزا میں علماء کرام کی شرکت یقینی بنائی جائے۔


شعرو شاعری کی آڑ میں علماء کو بےدخل کرنے کی کوششیں درحقیقت امتِ مسلمہ کو قیادت سے محروم کرنے کی سازش ہیں۔


ضروری ہے کہ علماء کی موجودگی کو لازم قرار دیا جائے، تاکہ علمی، فکری، اور دینی بصیرت کو فروغ دیا جا سکے۔


7️⃣ انتظارِ امامِ زمانہ (عج) کے عملی پہلوؤں پر توجہ دی جائے۔


شہید حسن نصراللہ کی تدفین کے بعد مرکزی سطح پر، اور گیاری سانحہ کی طرز پر، ہر گاؤں میں تعزیتی مجالس منعقد کی جائیں، تاکہ امت میں جذبۂ قربانی برقرار رہے۔


📌 *علماء کرام کی اہمیت اور دینی محافل میں ان کا کردار* 


اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں علماء کرام ہی دینِ حق کے محافظ رہے ہیں۔ ان کی رہنمائی کے بغیر دین کی بقا ممکن نہیں۔


📖 *اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:* 

❝ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ❞

(بے شک اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔) (سورۃ فاطر: 28)


✅ علماء کرام معاشرے کی فکری و نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کو نسل در نسل منتقل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔


✅ اگر آج ہمارے عقائد اور اسلامی شناخت پر حملے ہو رہے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ محافلِ اہلِ بیتؑ میں غیر سنجیدہ گفتگو کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے، جبکہ علماء کرام کو ان محافل سے دور رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔


✅ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اسلامی معاشرہ علماء کی قیادت سے محروم ہوا، باطل قوتوں نے آسانی سے عقائد پر حملہ کیا۔


✅ موجودہ عالمی حالات میں دجال شناسی، ایمان کے خلاف اٹھنے والے سوالات، اور عقائدِ اہلِ بیتؑ کے تحفظ جیسے حساس موضوعات پر صرف علماء ہی مدلل اور مستند گفتگو کر سکتے ہیں۔


✅ حوزہ علمیہ کے فضلاء، مجتہدین، اور دینی اسکالرز کو نظر انداز کرنا، درحقیقت امتِ مسلمہ کو قیادت سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔


📌 *نتیجہ* :

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں مضبوط عقیدے اور دینی بصیرت کے ساتھ پروان چڑھیں، تو علماء کرام کی رہنمائی کو ہر سطح پر ترجیح دینا لازم ہے!


📜 *پروردگار* ! ہمیں علماء کرام کے سائے میں دینِ مبین پر استقامت عطا فرما، اور ہمیں فتنوں کے مقابلے میں بیداری نصیب فرما۔


🔹 دعـــــــــــــــــــــــــاگو:

✍️ *حسن جوہری*

درویش طبیعت مجھے ___ وِرثے میں ملی ہے

میں ٹھیک، غلط، اچھا، بُرا، کچھ نہیں کہتا __!


اے نیک مَنْش میری نہیں _____ فکر کر اپنی

اُجڑے ہوئے لوگوں کو خدا کچھ نہیں کہتا _!

Post a Comment

0 Comments