Header ad

Ghulam Hassan Hasani's status in Baltistan mourning literature

*بلتستان کے رثائی ادب میں غلام حسن حسنی کا مقام و مرتبہ* 



   احباب !کربلا وہ تاریخی معرکہ ہے جس کا تذکرہ شام و سحر ہوتا رہے گا۔ظلم،ناانصافی،بدعنوانی،

اسلامی اقدار کی پامالی،شریعت میں بدعت اور جابر حکمرانوں کی اسلام دشمن پالیسیاں اس عظیم سانحے کے محرکات ہیں۔تاریخِ ِانسانی جتنی پرانی ہے یقین سے کہا جاسکتاہے آہ و بکا اور مراثی کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے۔  فطرت میں شامل ہےکہ درد و الم کے شدت کے ساتھ آہ و بکا، بین اور غم کا اظہار ہوتا ہے ۔

کربلا میں یزید اور اس کے پیروکار اس بات پر نہال تھے کہ انھوں حسین ؑ کو شہید کردیا اور ان کے اہل و عیال کو اسیر کردیا۔لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ حسینیؑ افکار کو جس شدت سے دبانے کی کوشش کی گئی اسی شدت کے ساتھ پیغام ِ حسینیؑ روز بہ روز پھیلتا جارہا ہے۔دنیا کا ہر حریت پسند طبقہ حسینؑ کو اپنا رہنما مانتا ہے۔جس سرِ اقدس کو بیعت کے لیے جھکانا چاہا تھا وہ سرِ اقدس نہ جھکا نہ بکا بلکہ سر بلند ہوا ۔قمرجلالوی نے کیا خوب کہا :


جھکانا چاہا تھا جس سر کو شام والوں نے
شکست دیکھئیے اس سر کو خود اٹھا کے چلے


دنیا کے دیگر خطوں کی طرح بلتستان میں بھی امام ؑعالی مقام اور ان کے باوفا اصحاب کا تذکرہ بڑے اہتمام کے ساتھ ہوتا آرہا ہے۔یہ خطہ چودھویں صدی عیسوی میں اسلام کی روشنی سے منور ہوا۔اسلام کی آمد کے ساتھ ہی یہاں مجلس عزا کا انعقاد ہوا۔اس دوران فارسی زبان میں نوحے،مراثی اور سلام وغیرہ پڑھے جاتے تھے۔انیسویں صدی تک آتے آتے یہاں کے شعرا نے بلتی میں کلام لکھنے کی طرح ڈالی۔اس ضمن میں 1840کے ہنگامے یعنی ڈوگرا استبداد کے نتیجے میں  قید ہونے والے مقپون شہزادوں کی رثائی ادب کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ان شہزادوں نے بلتی مرثیے لکھے اور ان کے کلام میں کربلا کے پردرد لمحات اور واقعات کو بہت ہی دلسوز اور پر اثر انداز میں پیش کیا گیا۔پابند سلاسل ہونے والے مقپون شہزادوں میں ملک حیدر مخلص،لطف علی خاں اور حسین علی خاں محب وغیرہ شامل ہیں۔

  محققین کا خیال ہے کہ بلتستان میں اردو میں نوحے اور سلام لکھنے کی روایت قیام پاکستان کے بعد کا معاملہ ہے۔پاکستان بننے کے بعد دیگر خطوں سے لوگ ہجرت کرکے بلتستان وارد ہوئے اور ان کے زریعے یہاں اردو کا چلن عام ہونے لگا۔اکیسویں صدی تک آتے آتے پورے خطے میں اردو کی مقبولیت پھیل گئی۔اور ساتھ ہی اردو رثائی ادب کی روایت مستحکم ہوتی گئی۔اس تناظر میں غلام حسن حسنی کا نام سر ِ فہرست ہے ۔حسنی نے اس خطے میں اردو،پنجابی اور سرائیکی طرز پر بلتی نوحے لکھے گویا انھوں نے بلتستان کے رثائی ادب کو نئی روایت عطا کی۔ان کے بیشتر نوحے بلتستان میں نکلنے والے جلوس ِ عزاکی ضرورت کے پیش نظر لکھے گئے۔

نذرانہء اشک (چھیمی بلٹن) حسنی کا مجموعہ کلام ہے۔یہ کتاب 2002 شائع ہوئی۔اس میں 37 بلتی نوحے اور 21اردو نوحے اور سلام شامل ہیں۔

اس کے علاوہ 

"دیکھا نہیں اے علقمہ" بھی بلتی ،اردو نوحوں ،سلام،رباعیات اور قطعات پر مشتمل،حسنی کی خوب صورت تصنیف ہے۔ بلا مبالغہ حسنی کا شمار گلگت بلتستان قادر الکلام شعراء میں ہوتا ہے۔انھوں تمام اصناف سخن میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔لیکن ان کی مقبولیت رثائی ادب اور مقبول صنف غزل میں ہے۔سادہ بیانی اور سوز و گداز ان کے کلام کا خاصہ ہے۔حسنی کا شاعرانہ مزاج اور کمال دیکھیے اسوہ شبیری ؑ کو کس خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے :

 

یہ مسئلہ نہیں کوئی نزدیک و دور کا

تو پیشوا ہے دہر میں ہر باشعور کا

زندہ ہے ملتیں ترے عزم ِ ثبات سے

ہر قوم لے رہی ہے سبق تیری ذات سے


حسنی کے ہاں درد و غم کے موضوعات بے شمار ہیں۔انھوں نے ہر موضوع کو اپنے مخصوص انداز ِ بیان سے پیش کیا ہے ۔شام ِ غریبان کا پُردرد لحمہ یوں بیان کرتے ہیں :


گھر جلے،قید ہوئے خیمہ و اسباب لُٹے

ایک بیمار کا بستر بھی ہے سامانوں میں 


حسنی اپنی آخری حسرت اور دل کی بیتابی کا اظہار کچھ اس انداز سے کرتے ہیں :


آخری حسرت ہے حسنی اس دلِ بے تاب کی

کاش خاکِ کربلا میں ہو مزار ِ زندگی

حسنی کی بےشمار تخلیقات آج بھی غیر مطبوعہ ہیں ۔تاہم ان کے فرزند اسماعیل حسنی اس حوالے سے پُر عزم ہیں۔اور اپنے والد مرحوم کی ادبی تخلیقات کو منظر عام لانے کی سعی کررہے ہیں۔

حسنی سراپا شاعر تھے،تخلیق کار تھے اور سب سے بڑھ محب ِ اہلیبیتؑ تھے۔حسب ِ زیل اشعار پڑھ کر حسنی کی عقیدت کا مشاہدہ کیجیے ۔انہی اشعار کے ساتھ میں اجازت چاہوں گا۔


حق آپ کی مدحت کا ادا ہو نہیں سکتا

سورج کے برابر تو دیا ہو نہیں سکتا

جس دل میں محبت ہو حسیں ابن ِ علی ؑ کی

انسان وہ اندر سے بُرا ہو نہیں سکتا ۔


🖊TEHREER - تحریر🖊

  • تحریر : ذوالفقار علی

Post a Comment

0 Comments