Header ad

اک عرض ِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

 اک عرض ِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے "


  ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جہاں جہان سو،ڈیڑھ سو گھرانے آباد ہیں۔وہاں  وہاں حکومتی سطح پر ابتدائی طبی سہولیات سے بھرپور  ڈسپنسریاں اور صحت کے مراکز قائم کریں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان دنیا کے جس وحشی ترین خطے میں بھی  پیدا ہوں بنیادی سہولیات دینا حاکم وقت کی اولین ذمہ داری ہے ۔ لیکن کیا کریں ہمارے ہاں  سہولیات کا منصفانہ تقسیم نہیں ہوتا ہے۔ہم اپنے ہمسائے کے حقوق اور مسائل سے بیگانہ ہوتے ہیں ،اپنے حلقے کے عوام سے بے خبر ہوتے ہیں لیکن عالمی سیاست ،عالمی معیشت اور عالمی حقوق انسانی پر بڑے دلچسپ گفتگو فرماتے ہیں۔معذرت کے ساتھ عرض یہ کہ اسمبلی میں تشریف فرما کر اپنے سیاسی قائدین (جو آپ کو ٹھیک سے جانتے بھی نہیں) کی حمایت میں  اور جھوٹی حمایت میں گلہ پھاڑ کر تقریر فرمانے سے کئی گنا بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے حلقے کے عوام کے مسائل پر بات کریں ۔

Brolmo colony
Brolmo colony


دوستو !! یہ علاقہ حلقہ دو سکردو کا سینٹرل ایریا ہے۔آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ تقریباً چھ سو گھرانوں پر مشتمل اس صحرا نما علاقے میں صحت کے مراکز تو دور کی بات ہے ایک عدد ڈسپنسری بھی موجود نہیں ہے ۔میرے مطابق سکردو کا سب زیادہ آبادی والا محلہ یہی محلہ ہے ۔یہاں 1998 کے بعد سے لوگ رہائش پزیر ہیں۔اس محلے کی خوب صورتی یہ ہے کہ یہاں بلتستان کے طول و عرض سے تقریبا تمام چھوٹے بڑے وادیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ کئی عشروں سے مقیم ہیں۔ان علاقوں میں شگر،روندو،کھرمنگ،خپلو،کواردو،قمراہ اور بشو وغیرہ شامل ہیں۔یہ محلہ مرتظی ٰ آباد کہلاتا ہے اور محلے میں سرحدی گاوں (جس کا تعلق کارگل وار سے ہے )برلمو کے بھی پینتیس \ 35 گھرانے مقیم ہیں اسی نسبت سے اس علاقے کو برولمو کالونی بھی کہا جاتا ہے ۔


صحت کے ساتھ دیگر تمام تر سہولیات ناپید ہیں ۔اس سلسلے میں ایک  واقعہ یاد آیا آپ اس سے یہاں کے مسائل کا اندازہ لیجیے ۔واقعہ یوں ہے کہ میرے ایک ہمدم دیرینہ اور پی۔ایچ۔ڈی اسکالر کا کسی کام کے سلسلے میں ہمارے ہاں آنا ہوا ۔اس دوران معمول کے مطابق کے مطابق ہماری گلی کی اکلوتی پائپ لائن کے ساتھ  دو درجن سے زائد کین| ڈبے اور برتنوں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی،دیکھتے ہی سر پکڑ کے بیٹھ گئے  ارے ذولفی یہ سب  کیا ہے

Brolmo colony

۔۔ کس چیز کےلیے ہے یہ لمبی لائنیں ۔۔۔۔۔ ؟ میں نے کہا حضور یہ اس بڑے محلے کی ہر چھوٹی  گلی کا قصہ ہے اور معمولی قصہ ہے روز کا قصہ ہے ۔۔۔ یہ پانی کھیت کھلیان کےلیے نہیں بلکہ صرف اور صرف پینے کےلیے ہے ۔۔ اور یہ لائنیں پینے کے پانی کےلیے ہیں ۔۔۔ یہ جان کر ان کی حیرت میں اضافہ ہوا ۔۔۔ اس دن سے لیکر آج تک میرے وہ دوست اس حیرت انگیز واقعے کا افسوس کے  ساتھ ہر کسی سے زکر کرکے میرے ساتھ دکھ میں شریک ہوتے ہیں اور اکیسویں صدی میں بھی  سہولیات کے فقدان پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں ۔

بات ہورہی تھی صحت کی۔اس ضمن میں ہمارے محلے کے دو عظیم خدمت گاروں  کا تذکرہ ضروری ہے ۔جنہیں پورا محلہ ڈاکٹر ۔ ڈاکٹر پکارتا ہے ۔محکمہ صحت سے وابستہ ڈاکٹر محمد حیسن اور گلزار بھائی ابتدائی ایام میں نرسینگ ٹرینیگ کے بعد پیشے سے منسلک ہوئے ۔آپ کو عجیب لگ رہا ہوگا کہ ہم انہیں ڈاکٹر پکارتے ہیں.  اصل میں یہی ہمارے لیے ڈاکٹر،سرجن ،دکھ درد کا ساتھی اور حقیقی مسیحا ہیں۔رات کے جس پہر بھی محلے کے کسی بزرگ کو ،جوان یا نوجوان ،خاتون یا کسی بچے کو خدانخواستہ کوئی چھوٹی بڑی تکلیف یا ازیت ہو ایسے میں  گھر کا کوئی بھی  فرد جاکے ان کا دروازہ 

کھٹکھٹائیں تو بغیر کسی عذر،بہانے،رعب و نخرے کے اٹھ کے آجاتے ہیں دوا دیتے ہیں ،چیک اپ کرتے ہیں،مشورے دیتے ہیں محلہ دار انہیں دعائیں دیتے ہیں ۔اور صبح تک مریض بلکل صحت یاب ہوجاتے ہیں۔اس بے مروت دور میں ان جیسوں کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں فرض کیجیے خدانخواستہ ایک مریض آدھی رات میں کسی تکلیف میں مبتلا ہو،گھر کا مالک مزدور پیشہ ہو،اور آدھی رات میں ٹیکسی کی تلاش میں نکلے کہ مریض کو دیکھیں کہ گھر والوں کو دلاسہ اور تسلی دیں کیا کریں کہ کیا نہ کریں ۔ ؟ ایک آدھ گھنٹے بعد گاڑی مل بھی جائے گی مگر ،بڑے ہسپتال کے بڑے سرجن کے پاس بغیر کسی جان پہچان اور بغیر کسی سفارش کے پہنچنتے پہنچتے  مرض اور مریض پے کیا گزرے گی۔ ؟ واپسی پے مزدور بندہ حساب کتاب کرنے بیٹھ جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دو سے تین ہزار روپیے صرف ٹیکسی کرائے کے مد میں ادا کرنے ہوں گے ۔

ہمارے محلے کے' ڈاکٹرز" معمولی موسمی بخار،الٹی موشن ،نزلہ زکام کھانسی اور معدے کے بنیادی امراض کا علاج جس ہمدردی اور خوش اسلوبی سے کرتے ہیں اس پر پورا اہل علاقہ نازاں ہیں۔اور اچھی بات یہ کہ حق اجرت زیادہ سے زیادہ تین سو روپیے لیتے ہیں۔جس میں دوا،ڈرپ،انجیکشن،اور طبی مشورے کے ساتھ ہمدردی بھی شامل ہوتی ہے۔ در اصل یہ لوگ حقیقی مسیحا ہیں۔آدھی رات کو بغیر کسی منت سماجت کے،زحمت برداشت کرکے تشریف لانے کے پیسے نہیں لیتے۔اصل میں داد و تحسین کے لائق یہی لوگ ہیں جو "نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ " کے مصداق پر پورا اترتا ہے۔صاحبان اقتدار سے گزارش ہے کہ ان مسائل پے توجہ دیں صحت سب سے بڑی نعمت ہے اس جدید عہد میں بھی صحت کی سہولیات نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ باقی محکمہ صحت کے ان دو شخصیات کا میں زاتی طور پر شکر گزار ہوں کہ آپ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت غریب پروری فرمارہے ہیں اور محکمے کے  اعلی افسران سے ایک گزراش یہ ہے کہ کبھی فرصت ملے تو اس محلے میں صحت کے حوالے سے کیمپ لگانے تشریف لائیں۔اور یہاں کے باسیوں کی صحت  دریافت کریں۔یہ آپ کی محکمانہ ذمہ داری بھی ہے اور عین عبادت بھی ۔ڈسپنسری نہ ہونے کی شکایت کا تعلق آپ لوگوں سے نہیں ہے ۔ امید ہے علاقے کے منسٹر اس سلسلے میں اپنے مشیروں سے گفتگو کرکے اس محلے میں بنیادی صحت کی سہولیات کی فراہمی کےلیے  سنجیدگی کا مظاہرہ فرماویں گے ۔۔۔

وگرنہ بروز حشر ان  کی بادشاہت پے سوال اور اعتراض کرنے والوں کی لمبی قطاریں ہوں گی اور وہ ۔۔۔۔۔


"بڑا مزا ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ


"وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کےلیے

Post a Comment

0 Comments