Header ad

محاذ ایریا کھرمنگ کا ایک مثالی شخصیت

محاذ ایریا کھرمنگ کا ایک مثالی شخصیت 

جس نے 45 سال کی عمر میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا

بو علی رضوانی
Tehreer : Bu Ali Rizwani

وہ بریسل یونین کے ایک گاؤں گنگنی وادی میں ایک متوسط زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئی۔گاؤں میں کوئی سکول مدرسہ تو تھا نہیں جو وہاں سے  پڑھنا لکھنا سیکھ لیتے ! اسلئے ہوش سنبھالتے ہی زمینداری کرنے اور بھیڑ بکریاں چڑھانے کا کام شروع کیا زرا اور بڑا ہوا تو ادھر ادھر کے علاقوں میں گھومنے پھیرنے یا کسی کام سے آنا جانا ہوا تیس سال کے عمر میں علاقے  سے باہر سکردو آئے۔


 1978 سے ٹھیکیداری کو اپنا پیشہ بنایا  ٹھیکیداری میں قسمت نے خوب  ساتھ دیا اپنی سخاوت اور خلوص کے باعث جلد ہی وسیع حلقہ احباب بنانے میں کامیاب ہوگیا۔

یوں 1984سیاست میں بھی قسمت آزمائی کی تو ڈسٹرکٹ ممبر منتخب ہوا۔

اب ٹھیکیداری کے ساتھ ساتھ سیاست میں دلچسپی بڑھ گئی اور دیکھتے کے دیکھتے کھرمنگ کی سیاست میں آپ 

 اپنی محنت اور ایمانداری کے طفیل معروف شخصیت بن گئی ساتھ ہی ٹھیکیداری کے سبب دولت اور تعلوقات میں اضافہ ہوتا گیا۔

یوں 1991 میں کھرمنگ سے این اے اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا انکا مقابلہ  ایک پڑھی لکھی سیاستدان قابل  شخصیت ، ماہر قانون، سید اسد زیدی سے تھا لیکن عوامی حمایت دونوں کے درمیان ٹکر کا ثابت ہوا۔

اس دوران گلگت بلتستان سطح پر سیاست میں ایسی حالات پیدا ہوئے کہ قائد بلتستان علامہ شیخ غلام محمد نے الیکشن سے بائکاٹ کا اعلان کیا۔

 حاجی اسماعیل نے بھی "قائد کے فرمان پہ جان بھی قربان ہے" کہہ کر بائکاٹ کردیا ۔

انہوں نے سکردو شہر میں کئی مارکیٹ اور جائدادیں بنوائیں لیکن  عروج کے بعد زوال شروع ہوا جائدادیں اور دکانیں ایک ایک کرکے بک گئیں۔ لیکن حوصلہ نہیں ہارا اپنی طرز زندگی میں کوئی کمی آنے نہیں دیا ، کبھی قسمت کا رونا نہیں رویا بلکہ جہد مسلسل پہ یقین رکھتے ہوئے ہمیشہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کھوئے  ہوئے کو پھر سے پالیا۔


حاجی اسماعیل لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا اپنے بھائی سے اخبار پڑھ کر سنانے کی فرمائش کی لیکن بھائی نے بہانے تراشتے ہوئے تعاون نہیں کیا جس پر انہیں جوش آیا اور

45 سال کے عمر میں عہد کیا میں لکھنا پڑھنا سیکھ لونگا ، تختی قلم اٹھایا دن رات مشق کرنے لگا ، کسی کے مشورے پہ ترجمہ فرمان علی والا قرآن مجید لائے کئی سال محنت کیا تب جاکر اخبار پڑھنے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے حد تک پڑھنا لکھنا سیکھ لیا۔اب وہ پڑھتا بھی ہے اور لکھتا بھی۔

الڈینگ مرول ٹاپ کا دشوار ترین پڑی کا ٹھیکہ ملا چیف انجینئر نے بھی کہدیا ، دوست دشمن سبھی نے مشورہ دیا تم اسے نہیں بناسکتے ہو استعفیٰ دیدو لیکن انہوں نے کروڑوں کا کام لاکھوں میں یہ کہہ کر کردیا کہ اگر میں نہ بناؤں تو کون بنائے گا؟!! میں ڈوب جاؤں تو خیر سینکڑوں بچ جائیں گے!!

 اور انہوں نے اس  مشکل ترین پہاڑ کا بھی سینہ چیڑ کر  اپنے اولی العزمی کو ثابت کیا۔

 مرول ٹاپ اس مرد جری کو  ہمیشہ انہیں یاد رکھے گی۔

انکا سارا سرمایہ ڈوب گیا لیکن  ہمت نہیں ہارا ، پھر سے کمر کس لیا۔

 یوں ایک بار پھر  زندگی کو اپنی منشا کے مطابق معمول پہ لے آیا۔


حاجی اسماعیل مالی پہ ، غریب پرور ، صاف گو ، علماء پرست اور سخی شخصیت کے حامل ہے۔وہ اپنی زندگی کی تمام تر کامیابیوں کا راز یہ بتاتا ہے کہ 1972 میں میرے والد کا انتقال ہوا اور تب سے میں نے کوئی بھی کام اپنی ماں کی اجازت کے بغیر نہیں کیا۔

 وہ کہتا ہے کہ جہاں ماں نےاجازت نہیں دی وہاں میں نے لاکھوں کی مفادات کو بھی ٹھکرادیا ہے۔

کیونکہ میرا ایمان ہے کہ اگر ساری دنیا مجھ سے خوش اور ماں مجھ سے ناراض ہوں تو میں سراسر نقصان میں ہوں۔ اور ماں خوش ساری دنیا مجھ سے ناراض رہے میں پھر بھی فائدے میں ہوں۔

حاجی اسماعیل ایک پسماندہ علاقے کا وہ سماجی کار کن ہے جس پر علاقے کے لوگوں کو بلاشبہ فخر ہیں وہ آج بھی سیاست میں اپنا موثر کردار ادا کر رہا ہے سابق منسٹر اقبال حسن کی کامیابی میں انکا بنیادی کردار رہا ہے۔ وہ باد شاہ نہیں باد شاہ گر ہے ۔

خدا انہیں سلامتی کے ساتھ طول عمر عطا فرمائیں آمین گزشتہ دنوں ان سے ملاقات کی توفیق ہوئی تو انکی سبق آموز زندگی کو آپ سے بھی شیئر کرنا مناسب سمجھا کیونکہ انکی ذات نوجوانوں کیلئے ایک موٹیویشنل شخصیت ہے ۔

بو علی رضوانی۔

Post a Comment

0 Comments