Header ad

موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس(تحریر : محمد سجاد شاکری)

موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس

شیخ محمد علی بلتستانی
تحریر : محمد سجاد شاکری


جب کسی علاقے میں ایک عالِمِ دین دنیا سے پردہ کر جاتا ہے تو اس علاقہ کی عوام  اس عالِم کی موت کے باعث علمی روشنی سے محروم ہو جاتی ہے،عالم کی موت  ایسا نقصان ہے جو پورا نہیں ہوسکتا۔ عالم کی موت نہ فقط ایک بڑا خسارہ  ہےبلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ 

اپنی شفقت پدری سے مجھ جیسے دسیوں طالب علموں کی سرپرستی کرنے والے عظیم مدرّس، شفیق استاد، دلسوز مربی، نڈر مبلغ، دلربا خطیب اور جلیل القدر عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ محمد علی بلتستانی صاحب کی موت کی خبر ہم پر بجلی کی طرح گری۔ لیکن حُسن اتفاق یہ ہے کہ جب ان کی بیماری کی شدت کی خبر ملی تو اس وقت بندہ حقیر حرم حضرت معصومہؑ میں موجود تھا۔ ان کی صحت و سلامتی کے لئے دعا مانگی لیکن رب کو کچھ اور منظور تھا۔ کہ جب حرم میں ہی دعا کے لئے جارہا تھا تو حرم کے دروازے پر آپ کی وفات کی خبر ملی۔ حضرت معصومہ ؑ اور اہل بیت اطہار ؑ آپ کی شفاعت فرمائے۔ 

آپ نے اپنے علمی و مذہبی خاندان کی لاج رکھتے ہوئے زندگی بھر تحصیل علم، تبلیغ دین، تربیتِ شاگرد اور خدمت خلق میں گزاری۔ آپ کی علمی زندگی کا سفر اپنے مرحوم والد گرامی آخوند غلام عباس کے پاس زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے بعد سے شروع ہوا  اور پاکستان کے مختلف دینی درسگاہوں سے ہوتا ہوا حوزہ علمیہ قم میں اعلیٰ علمی مدارج طے کرنے کے بعد تبلیغی سفر میں بدل گیا۔ 

آپ اگرچہ پاکستان کے مختلف شہروں میں تبلیغ دین میں مصروف رہے لیکن زندگی کا زیادہ تر حصہ کراچی کورنگی (۴۸بی) میں گزارا۔ جہاں آپ نے کم شیعہ آبادی والے اس محلے میں ایک خستہ حال مسجد سے اپنی تبلیغ کا آغاز کیا، جو اس وقت بڑے شیعہ آبادی والے محلے میں بدل چکا ہے اور مسجد بھی بہت وسیع و عریض زمین پر بن چکی ہے۔ ہمارے لئے ان کی زندگی میں جو سبق آموز اوصاف نظر آئے وہ کچھ اس طرح ہیں:

۱۔ آپ اخلاص کے پیکر تھے۔ بندہ حقیر نے  اپنی زندگی میں جن انگشت شمار شخصیات کو (الحب في الله والبغض في الله) کا مصداق پایا ہے ،ان میں سے ایک آپ تھے۔

۲۔ سادگی میں آپ کی شخصیت بے مثال تھی۔ جنہوں نے ان کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اس بات کی وہ یقیناً تصدیق کریں گے۔ اور یہ سادگی بھی ناداری کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ کبھی تو وہ خود کو سختی میں ڈال کر دوسروں کی آسائش کی فکر کرتے تھے۔ 

۳۔ آپ نےکبھی تبلیغ دین کی راہ میں ڈر اور خوف کا اظہار نہیں کیا۔ بلکہ حق گوئی ببانگ دہل کرتے تھے۔ 

۴۔ آپ جہاں تبلیغ دین کی راہ میں بے خوف تھے وہاں اچھے اخلاق سے مزین بھی تھے۔ بہت سارے غیر مکتب کے لوگ آپ کے اخلاق حسنہ سے متاثر تھے۔ 

۵۔ آپ فکری طور پر امام خمینیؒ، شہید باقر الصدرؒ، شہید مطہریؒ اور رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای کے افکار سے متاثر تھے۔ اور سب سے زیادہ آپ  آیت اللہ خامنہ ای کی شخصیت کی جامعیت سے  متاثر تھے۔

۶۔ آپ مولوی کی دوڑ مسجد تک والی سوچ کے مخالف تھے بلکہ ایک اصلاحی سوچ رکھتے تھے لہذا جس محلے میں زندگی گزاری اس کی اصلاح کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ جسے اس محلے میں ۲۰ سال سے رہنے والے زیادہ بہتر درک کر سکتے ہیں۔

پروردگار عالم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہیں کہ اللہ رب العزت ان کی تمام لغزشوں کو معاف فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے، محمد و آل محمد کی شفاعت انہیں نصیب فرمائےاور تمام لواحقین کو صبر جمیل عنایت فرمائے۔ 

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 

محمد سجاد شاکری

حوزہ علمیہ قم ایران

Post a Comment

0 Comments