Header ad

عالمی یومِ مزدوراں پر ایک خصوصی تحریر ۔ ذوالفقار علی

*لب ِ مزدور پے دلسوز دعا آج بھی ہے*

یکم مئی یوم مزدور
تحریر : ذوالفقار علی


   مزدور ،مُزد اور وٙر سے بنا ہے ۔فارسی میں مُزد کا مطلب اجرت ہے اسی طرح ور کے لاحقے کے ساتھ مزدور یعنی اجرت پر کام کرنے والا ۔گویا جو بھی جس پیشے سے بھی تعلق رکھتا ہو اجرت پر کام کرتا ہو مزدور ہے ۔ہمارے سماج میں مزدور ایک خاص طبقے کے لیے مستعمل ہے۔یوں  یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد امریکا کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے۔ انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے بھرپور استعارے کا دن یکم مئی ہے۔ 1886ء میں شکاگو میں سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھنے والی آواز، اپنا پسینہ بہانے والی طاقت کو خون میں نہلا دیا گیا، مگر ان جاں نثاروں کی قربانیوں نے محنت کشوں کی توانائیوں کو بھرپور کر دیا۔ مزدوروں کا عالمی دن کار خانوں، کھتیوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کار گاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے ۔مزدور دراصل کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت کا علمبردار ہے ۔سماجی ترقی میں مزدور کے کردار کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ذیل میں ایک افسانچے کو پیش کیا جارہا ہے جس میں اجرت پر کام کرنے والے (مزدور) کو اس کے مالک یا ٹھیکدار نے مزدوری نہیں دی ۔اس بے رحمی پر مزدور خون کے آنسو رو رہا ہے اور ستم یہ کہ اس مزدور کے گھر کا چولہا بہ مشکل جل رہا ہے اور وہ محلے مقروض بھی ہے۔

" حضور آپ لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا مذہبی رہنماؤں،سیاسی لیڈروں اور شہر کے معززین کے ساتھ ہوتا ہے نا اس لئے کوئی بھی آپ کی بدعنوانی ،کرپشن اور مزدوروں کے ساتھ   کیے جانے والے مظالم پر یقین کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا ۔۔۔۔ "

عبد الصمد نے انتہائی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے اور حد درجہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بوس سے کہا  جس نے حال ہی میں ان کی ایک ماہ کی مزدوری فقط یہ کہہ کر نہیں دی تھی عبدالصمد ان سے پوچھے بغیر  کسی اور ٹھیکیدار کی فیکٹری میں کام کرنے گیا تھا۔۔۔

 بوس :ارے چپ کر یہ فلسفیانہ محققانہ اور تمہاری احمقانہ باتیں رہنے دو مجھے تم جیسے مزدور  سینکڑوں کی تعداد میں چوراہوں پر مل جائے گا۔ مجھ سے زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اس دن بھی تمہیں صاف صاف کہہ دیا تھا کہ تمہاری ایک مہینے کی مزدوری میں نہیں دوں گا۔۔۔

 صمد نے اپنی پیشانی سے پسینہ  پونچھتے ہوئے مایوس کن نظروں سے اپنے بوس کو دیکھا ۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ الہی لوگ اتنے بھی بے رحم اور ظالم کیسے ہو سکتے ہیں؟

 پسینہ پونچھتے  ہی صمد کے پیشانی مٹی سے آلودہ ہوگئی۔ اس موقع پر اس کی بے بسی اور زیادہ نمایاں ہو گئیں۔اور وہ انتہائی بے بس لگ رہا تھا ۔۔

 خاموشی توڑتے ہوئے صمد نے دھیمی سی  آواز میں کہا

 سر جی آج جمعہ تھا صبح میں کام سے جلدی چھٹی لے کر آ گیا تھا آپ کے گھر گیا تو معلوم ہوا کہ آپ جمعہ پڑھنے آئے ہیں ۔لہذا پچھلے ایک گھنٹے سے اسی چوراہے پہ میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں ۔ مہربانی فرما دیجئے میرے پچھلے ماہ کی مزدوری مجھے عطا کیجیے آپ کی مہربانی ہوگی۔ میرے بزرگ ماں باپ ، چھوٹے بہن بھائی آپ کے لیے دعا کریں گے سر ۔۔۔۔

 دیکھو بھائی میں نے تمہارا ہر لمحہ خیال رکھا تمہیں کام پر رکھا تم نے محنت بھی کی لیکن۔۔۔  یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن تمہیں کس نے کہا تھا کہ مجھ سے پوچھے بغیر ٹھیکیدار ثروت کے پاس کام کرو ۔۔؟؟ باقی مزدور اسی تنخواہ سے خوش تھے تو تم کون ہوتے ہو ،کہ ہمارے کام کو چھوڑ کر کہیں اور جانے والے ۔۔۔

 بوس نے کرتے کی جیب سے تسبیح نکالتے ہوئے غصے میں کہا ۔۔۔۔

صمد :  ساب مجھ سے غلطی ہوگئی میں نے سوچا تھا کہ زیادہ پیسے ملیں گے تاکہ گھر کا کرایہ خرچہ اور بھائی بہنوں کی تعلیمی اخراجات پورے کر سکوں۔۔۔ صمد نے انتہائی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے بوس سے دوبارہ گزارش کی ۔۔۔  ساب دیکھے نا۔۔ آج بھی میں نے دن بھر آپ کا انتظار کیا ۔۔ ایک گھنٹے سے اسی چوراہے پہ کھڑا آپ کا انتظار کر رہا تھا اور میں نے آج کا پورا خطبہ بھی سن لیا  اور مولوی صاحب خطبہ دیتے ہوئے مزدور  کی مزدوری کے حوالے سے اس حدیث کی تشریح کر رہے تھے کہ پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدور کی مزدوری ادا کریں ۔۔۔ دیکھیے ساب  پسینہ تو کیا آپ کی فیکٹری میں کام کرتے کرتے میں کس قدر کمزور ہو گیا ہوں،  اور ساب ۔۔ یہ میرے ہاتھ اور پیر دیکھ لیجئے ان میں چھالے پڑے ہیں ۔۔۔ صمدنے  ہاتھوں کو آگے کرکے بوس کو دکھانے کی ناکام کوشس کی ۔۔۔ جب اسے محسوس ہوا کہ بوس کو ان کی بے بسی سے کوئی سروکار نہیں ہے تو وہ شرمندہ ہو کر ہاتھوں کو سمیٹنے پر مجبور ہوئے ۔۔۔۔ اور مزید کچھ کہنے ہی والا تھا۔۔ ۔۔

بوس نے بات کاٹتے ہوئے کہا بس بس  زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے سنو ۔۔ یہ ہماری فیکٹری کا قانون ہے جانتے ہو قانون کسے کہتے ہیں ۔۔۔؟ ارے چھوڑو ۔۔۔ تم جیسے غریبوں کو قانون آئین شریعت کا کیا پتہ ؟؟

 صمد اور بوس کے درمیان مکالمہ نامکمل رہا۔۔ کیوں کہ  بوس کا کوئی دیرینہ دوست نور دین آیا ۔ انہیں بوس کو صمد کے ساتھ دیکھ کر حیرانی ہوئی ۔ وہ حیران ہوکر متعجبانہ انداز میں ہوچھنے لگا ارے سر آپ یہاں کیا کررہے ہیں ۔۔۔؟ میں آپ کو ڈھونڈنے آپ کے گھر گیا تھا  مسجد کے دروازے تک تو آپ میرے ساتھ ہی تھے ۔۔  آپ شاید بھول گئے ہو آج ہماری تنظیم فلاح نوجوانان کی مرکزی تقریب ہے اور اس میں آپ بطور مہمان خصوصی شریک ہوں  ہوں گے۔

بوس ۔ ارے کیوں نہیں، ضرور ۔ مجھے یاد ہے نا ابھی چلتے ہیں ۔

نور دین اور بوس چلے گئے۔۔

صمد نڈھال ہوکر  زمین پر بیٹھ گئے اور اس نے ٹھنڈی آہ بھری، وہ بے ساختہ رونے لگا، اسے آج اپنی بے بسی کا شدت سے  احساس ہورہا تھا۔وہ اپنے خون پسینے کی محنت کے عوض ملنے والی مزدوری کے لیے  کئی ہفتوں سے زلیل  ہورہا تھا۔۔ اس دوران اس نے دوبارہ بوس کے جملے کو دہرا کر اپنے آپ کو کوسنا شروع کیا ۔۔۔ خود سے کہا کہ اے صمد تم جیسے  غریبوں کو آئین قانون اور شریعت کا کیا پتہ۔۔۔ ؟؟

 جی ۔ایس چورنگی کے اس مصروف ترین سڑک کنارے بیٹھےاس کے ذہن میں بہت ساری باتیں آرہی تھی وہ پریشان تھا کہ  کہ آج کی شام بھی بغیر پیسوں کے گھر کس منہ سے جائیں۔۔۔  مالک مکان اور محلے کے دکان دار کو کیسے منھ دیکھائیں  کیوں کہ ان سے وعدہ کیا تھاآج یعنی 18 نومبر بروز جمعہ شام 5بجے تک  تمام بقایا جات ادا کر دیے جائیں گے۔۔ اس کے بعد آج ہی منڈی جا کے انہوں نے سردیوں میں جلانے کےلیے  لکڑیوں  کا اہتمام بھی کرنا تھا۔۔۔ صمد کے زہن میں بیک وقت کئی باتیں آرہی تھی ۔۔۔ اسے آئین ،قانون اور شریعت کا کچھ بھی پتہ نہیں تھا ۔۔۔۔ لیکن وہ سوچنے لگا کہ شاید ایسا کوئی ضابطہ تو کہیں  نہیں ہوگا دنیا میں جو مزدور کو حق حلال کی کمائی دینے سے 

روکے ۔۔۔۔

https://www.facebook.com/100007781738506/posts/3421898094746215/?mibextid=vPdvX0B5T65af74v


Post a Comment

1 Comments