Header ad

انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو (علی ذوالفقار)

 انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

علی ذوالفقار کی تحریر
علی ذوالفقار


   ہم نے دیکھا کہ تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر،انسان نے متعلقہ شعبہ جات میں نام کمایا۔شور شرابے کی اس دنیا میں کبھی کبھی حسین و دلکش آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں ۔شور کے بیچ میں حسین آوازوں کو پہچاننا آسان کام نہیں،بلکہ اس کے لیے بصیرت اور اچھی سماعت چاہیے ۔ادبی دنیا میں انگنت شعرا،تخلیق کار پیدا ہوئے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نہ وہ شعرا رہے،نہ ان کی شاعری اور نہ وہ بلند و بانگ دعوے،یعنی وقت کی تیز رو کے ساتھ سب بہہ گئے۔لیکن بعض آج بھی صدیاں گزرنے کے باوجود " تا حشر جہاں میں میرا دیون رہے گا ۔ کے مصداق پر پورا اترتا ہے ۔اور واقعی ۔

" سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا ۔۔

" مستند ہے میرا فرمایا ہوا ۔۔

اور

" جانے کا نہیں شور سُخن کا مرے ہر گز ۔۔

" تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا ۔۔

اور بعض یوں بھی فرما گئے 

" کسی نے تری طرح سے اے انیس ۔۔

" عروس ِ سُخن کو سنوارا نہیں ۔۔

 

آپ کو ان اشعار میں شاعرانہ تعلی مبالغہ آرائی  نظر آئی گی۔ میں بھی آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔لیکن یقین کیجیے ان اشعار میں مبالغہ آرائی کے ساتھ حقیقت بیانی بھی کی ہے۔یہ وہ عظیم تخلیق کار تھے جنھوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر دنیائے ادب میں نام کمایا۔اور نہ صرف اپنے زمانے بلکہ آنے والے عہد پر بھی راج کیا۔

عہد جدید کے ادبی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح عوام و خواص اور نوجوان نسل کو سہل پسندی،سستی شہرت  کی جانب لےجایا جارہا ہے ۔آج کا معمہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شاعر یا ادیب کے تخلیق پاروں کے معیار کا تعین ان کی مقبولیت،شہرت یعنی فالوورز کی تعداد سے لگایا جارہا ہے۔حالانکہ معیار کے تعین کےلیے تعداد ہی کو حرف آخر ماننا کسی طور انصاف نہیں ۔

دوستو ! آپ سب جانتے ہیں،سوشل میڈیا کا مزاج عامیانہ ہے۔یہاں اخلاق سے گری ہوئی باتیں،غیر اخلاقی ویڈیوز،سوقیانہ پن اور گالم گلوچ کو ہی زیادہ سے زیادہ ویوز ملتے ہیں ۔تو کیا ہم ان چیزوں کو معیار قرار دیں گے ۔۔۔؟؟

نہیں ۔۔ ہر گز نہیں ۔۔۔۔۔ اسی طرح

اچھی شاعری اور مقبول شاعری میں بھی بہت فرق ہے۔آفاقی موضوع،زبان و بیان کی چاشنی،روز مرہ جات اور محاورات کا درست اور برمحل استعمال شاعری کی پہچان ہے ۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی  اس آفاقی موضوع کے حامل شعر کی اہمیت کسی طور کم نہیں ہوسکتی بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اہمیت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

"ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دم نکلے ۔۔

"بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے ۔۔

 اساتذہ کرام نے بتایا کہ دنیا میں دو طبقے ہیں ۔منقولات اور معقولات۔اور یہ بھی کہا کہ معقولات (یعنی معیار) کےلوگ بہت ہی کم ہیں۔ادبی حلقوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ معقولات پے زیادہ سے زیادہ بحث ہو۔عزیزو !اس معاشرے کی تعمیر و ترقی کےلیے ہم اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔منفی رویوں اور رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔شعر و ادب کے زریعے بھی معاشرے کی فلاح و بہبود کا کام کیا جاسکتا ہے۔شعرو ادب کے زریعے بھی معیار زندگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔لہٰذا مقدار نہیں معیار کی تلاش جاری رکھیں۔اگر آپ معیار کو ٹھکرائیں گے تو آنے والے لوگ بھی آپ کے نقش قدم پر چلنے پر مجبور ہوں گے ۔اور


" کس نے کری جینز ممنوع 

" پہنو اچھی لگتی ہو 

اور

" اس کا نام دوبارہ مت لینا۔۔

" ایک پسٹل ہے چلا لیتا ہوں ۔۔

جیسے موضوعات (بکواسات) پنپتے رہیں گے ۔مجھے اجازت دیجیے کیوں کہ 


"خیال ِ خاطر احباب چاہیے ہر دم۔۔

" انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو 






*ادبی ایوارڈ کا حقدار: غلام حسن حسنی


تحریر: ذوالفقار علی


غلام حسن حسنی بلتستان کی خوب صورت وادی، ضلع کھرمنگ کے گاوں غندوس میں 1955میں پیدا ہوئے ـ غندوس کے وہ ایسوکپہ قوم کے چشم و چراغ تھے۔ جو بعد میں ایسوکپہ سے بگڑ کر یوسف پہ ہوگیا ـ اب یوسف پہ ہی اس قوم کا مستقل نام ہے ۔ بتایا جاتا ہے حسنی کے والد حسین علی اپنےمنفرد لب و لہجے،طنز و مزاح کے حوالے سے پورے علاقے میں معروف تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حسنی کو شعری ذوق ان کے والد کے ہاں سے ملا ۔اور بعد میں زندگی کے اتار چڑھاو نے اس ذوق کو مزید نکھارا۔حسنی کے ابتدائی ایام انتہائی غربت میں بسر ہوئے ـ غربت اور ناگفتہ بہ حالات کا اندازہ ان کی معروف تصنیف  خود نوشت “پنجرہ اور پھول” کے مطالعے کے بعد لگایا جاسکتا ہے ـ انہوں نے رومبوخہ گاوں کے اسکول سے تحصیل علم کا آغاز کیاـ لیکن بہت جلد ان کے والد نے غمِ دوراں سے مجبور ہوکر ہجرت کرنے کی ٹھان لی یوں حسنی اپنے گھر والوں کے ساتھ گاوں چھوڑ کر اسکردو اور پھر بعد ازاں لاہور منتقل ہوگئے ـ یہ 1964کا زمانہ تھاـ وہ  لکھتے ہیں کہ

 ” زادِ راہ میں ستو کے دو تھیلے ،اور خشک میوے تھےـابا خوش تھے ان کو ایک دیرینہ خواب کی تعبیر مل رہی تھی ـمیرے تن پر وہی اسکول کی وردی تھی ملیشیاء کی بوسیدہ کپڑے کی شلوار قمیص،پاوں میں جوتا دس سالہ بچے کا نہیں تھا بلکہ مجھ سے عمر میں کسی بڑے کا تھاـفلیٹ نما جوتا پہنے زمین پر گھسٹے ہوئے چلا جارہا تھا ـــــــ"


قارئین اندازہ لگا لیجیے کس قدر زندگی مشکل تھی ـ

1973میں میٹرک کرنے کے بعد ان کی شادی ہوئی چونکہ شادی گاوں میں ہوئی تھی شادی کے بعد دوبارہ لاہور چلے گئے اور کالج میں نصابی کتب کے ساتھ ساتھ ہم نصابی مشاغل میں بھی دلچسپی بڑھنے لگی ـ چنانچہ شعرو شاعری،ناول افسانے وغیرہ پڑھنے لگ گئےـ کالج کے دوران حسنی نے پہلا کلام لکھا اس کا پہلا شعر کچھ یوں تھاـ


جو تجھ میں ذوقِ گفتاری نہیں ہے

تو تیری زیست معیاری نہیں ہے


بعد میں یہ کلام کالج کے میگزین کریسنٹ میں چھپا ـیہی وہ ذمانہ تھا جس میں حسنی نے اک نو آموز شاعر کی حیثیت سے ادبی سفر کا آغاز کیا ـ اس دوران وہ ملک کےجن نامور شعراء وادباء سے فیضیاب ہوتے رہے ان میں شاعرِ درد حماد اہلیبیت محسن نقوی اور برصغیر کے عظیم شاعر ساغر صدیقی وغیرہ شامل ہیں ـچنانچہ ایک شعر انہوں نے ساغر کے حوالے کہا تھا کہ


جب تھا زندہ تو کیا دنیا نے ساغر سا سلوک

جب مرا تو نام میرا کتنے اخباروں میں تھا


پردیس کی آب و ہوا نے نوعمری ہی سے حسنی کی شخصیت کو منفرد انداز میں نکھارا تھا ـ چنانچہ جب وہ لاہور سے اسکردو منتقل ہوے تو عوام و خواص نے انہیں کہنہ مشق شاعر اور ادیب کے طور پر دیکھا ـ یوں انتہائی کم عرصے میں وہ بلتستان کے ادبی افق پر بلند اور چمکدار ستارا بن کر چمکنے لگا ـ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان اسکردو کا قیام( اپریل 1979)  عمل میں آیا تو حسنی کی شناسائی وہاں بھی ہونے لگی اور ریڈیو کے لیے ایک بحر طویل کے بعد قوالی،نغمے،ڈرامے،تقریر اور غزلیں وغیرہ لکھنے لگے ـ

  حسنی بلتستان میں پہلی ادبی انجمن حلقہ علم و ادب کے بانی تھے ـ انھوں نے یہاں ادبی انجمن کی بنیاد رکھ کر ادبی فضا کو معطر رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہےـ جسے تادیر یاد رکھا جاے گاـ درحقیقت وہ درویش صفت انسان تھے ـوہ سراپا شاعرو ادیب تھےـ ان کا نام بلا مبالغہ گلگت بلتستان کے عظیم ادیبوں میں شامل رہے گا ـوہ بیک وقت شاعر،افسانہ نگار،سوانح نگار،محقق،سفرنامہ نگار،اور نقاد تھے ـ انھوں نے کبھی بھی ضمیر کا سودا نہیں کیا اور جیسے محسوس کیا ویسے بیان کیاـ یوں انھوں نے قلم کا حق ادا کردیاـوہ برملا اعلان کرچکے تھے کہ


بہت غریب ہوں لیکن کھی نہ بیچوں گا

یہ جو ضمیر ہے میرا بکاو مال نہیں

  حسنی نے اپنی تمام تر توانائیاں ادب کی آبیاری کے لیے وقف کر رکھی تھی ـ ان کی نثر کی طرح شاعری بھی باکمال تھی ـان کی شاعری محبت کی اور امن کی شاعری ہے وہ نفرت تعصب اورظلم و بربریت کے خلاف علم ِبغاوت بلند کرتے رہے۔


آو سب مل کر گرائیں دوستو!

سامنے نفرت کی جو دیوار ہے

یہ فقیرِ شہر کا خستہ مکاں

وہ امیرِ شہر کا دربار ہے

فاختائیں امن کی سب اڑ گئیں

جس کو دیکھو اسلحہ بردار ہے


 ان کے مداحوں کی کثیر تعداد نا صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ کرگل لداخ (ہندوستان) میں بھی موجود ہیں ـ

حسنی کی ادبی تخلیقات میں شعری مجموعہ آئینہ فکر (خسمبی میلونگ)سلام اور نوحےنذرانہ اشک ،افسانوں اور انشائیوں کا مجموعہ گیت بنے انگارے،بلتی ضرب الامثال،محاورے تم لو،سفر نامہ سکردو سے کرگل تک شامل ہیں ـ علاوہ ازیں ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اسماعیل حسنی نے دو کتابیں شائع کیے ان میں حسنی کی خود نوشت پنجرہ اور پھول اور نوحوں کا مجموعہ دیکھا نہیں اے علقمہ اب تک کی مطبوعہ جات ہیں ـ

  غیر مطبوعہ جات میں گلمن(بلتی انسائیکلوپیڈیا) جدید بلتی غزل(تنقید)قطعات کا مجموعہ خوستر،مجموعہ کلام بادلوں کا سفر،سفرنامہ ایران،سفرنامہ سوئیزرلینڈ،زرعی و ملی نغمے سلام پاکستان اور مجموعہ کلام غزلیات ِ حسنی شامل ہیں ـ

  حسنی بھلا کے زہین تھےـ انھوں نے تقریباً تمام اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی ہے ـان کے ادب پارے ایک سے بڑھ کر ایک اہم ہیں ـ انھوں نے بلتی ضرب الامثال اور محاورے کی کتاب مرتب کرکے پوری قوم پر بڑا احسان کیا ہے ـ

  حسنی نے بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی شرکت کی ـ اس سلسے میں 2002میں ہمالیائی زبانوں پر منعقدہ ادبی کانفرنس میں شرکت کے لیے سوئیزرلینڈ کا سفر بھی کیا اور وہاں بلتی ادب و ثقافت پرمقالہ پیش کرکے خطے کی بھر پور نمائندگی کی ـاس کے علاوہ 2005میں لداخ سٹڈیز کے زیر اہتمام کانفرنس میں خصوصی دعوت پر کرگل لداخ (ہندوستان) کا ادبی دورہ بھی کیا ـ

  قارئین کرام! ادب کے اس بہادر سپاہی نے گلگت بلتستان کے آسمانِ ادب کو تا حدِ نظر روشن رکھا ـ ان کی ادبی خدمات کے عوض اگر انہیں بڑے سے بڑا  ادبی ایوارڈ سے نوازا جائے تو کم ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر انہیں کوئی ایوارڈ دیا جاتا ہے تو خود ایوارڈ کی عزت افزائی ہوگی ـ دوسری بات یہ کہ ان کے وفات بعد بھی ادبی خدمات کا پورا زمانہ معترف ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ مقتدر حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ  ادبی میدان کے اس عظیم ہستی کو بڑے سے بڑا ایوارڈ دلانے میں کردار ادا کریں ۔ تاکہ حق حقدار تک پہنچ سکیں۔

    حسنی کینسر کے موذی مرض کے باعث ادبی فضا کو مغموم چھوڑ کر 2010 میں ابدی سفر پر روانہ ہوئے ـ مرحوم چونکہ سچے عاشق آل نبی تھے اس لیے وصیت کرچکے تھے کہ ان کے جنازے میں نوحہ پڑھوا جاے ـ لہٰذا وصیت کے مطابق ان کا آخری نوحہ جنازے میں پڑھوایا گیا ـ محترم قارئین میں  نے محض یہ کوشش کی ہے کہ اس مضمون میں حسنی کا مختصر  تعارف اور تصانیف کا مختصر زکر ہوـ ان کی تصانیف پر تبصرے ان شاءاللہ آنے والے وقتوں میں پیش کردوں گا ـ آخر میں حسنی کے اس مشہور شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا ـ


گربشد سولا بیک لے رگنو بیس نہ کو کھن چی سو سہ مید ــ

نی مرگہ کھن پو نانگ ژہ ان نلہ مرگہ کھن چی سو سہ مید ــــ


ترجمہ: ایسی سماعت کسی کی بھی نہیں جو میری شکایت سن سکے۔

میں کس سے شکوہ کروں مجھ سے دشمنی رکھنے ،مجھ سے نفرت کرنے والا میرے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔

اردو میں تین اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔


حالِ دل ِ ویراں پے ہنسا کون کرے گا۔۔

یہ کام بھی اپنوں کے سوا کون کرے گا۔۔

دیوانہ تھا اک شہر میں وہ مرگیا کل شب ۔۔

اب تجھ سے محبت کا گلہ کون کرے گا۔۔

میں آئینے کے سامنے بیٹھا تو ہوں حسنی ۔۔

اب دیکھیے آغاز ِ جفا کون کر ے گا ۔۔



ذوالفقار علی


Post a Comment

0 Comments