*بیانیہ اور پاکستانی بیانیہ*
تحریر : ذوالفقار علی
پاکستانی بیانیہ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کے وسیع تر علمی و ادبی تجربے کا لب لباب ہے۔250 صفحات پر مشتمل اس مختصر کتاب نے ادبی و علمی حلقوں میں دھوم مچادی ہے۔ادبی دنیا کے لیے شاداب احسانی کوئی نیا نام نہیں ہے۔علم عروض کے ماہر،معروف شاعر ادیب،ماہر تعلیم اور سابق صدر شعبہ اردو جامعہ کراچی ذوالقرنین احمد معروف بہ شاداب احسانی پچھلے تیس سالوں سے ہندوستان اور پاکستان کے متعدد ادبی حلقوں کی سرپرستی فرمارہے ہیں۔شاداب احسانی معروف شاعر اور مزدور شاعر احسان دانش کے شاگرد رہے ہیں۔آپ کی زیر سرپرستی ،20 سے زائد طلباء پی ۔ایچ ڈی کی سند حاصل کرکے علمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔موصوف نے 2017میں کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس بلوا کر ادارہ پاکستانی بیانیہ کی بنیاد رکھی۔دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے چاروں اطراف سے اہل دانش اس حلقے میں شامل ہوئے۔اور یوں
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ۔
بیانیہ اور پاکستانی بیانیہ دراصل شاداب احسانی کے مضامین کا مجموعہ ہے۔یہ مضامین مستقل طور سے روزنامہ 92 میں شائع ہوتا رہا۔آداب انٹرنیشنل اور حلقہ شاداب احسانی کے زیر اہتمام شائع ہونے والی اس کتاب میں کُل ،42 مضامین ہیں ۔جن کا موضوع پاکستانی بیانیہ ہے۔
شاداب احسانی کا فرمانا یہ ہے کہ بیانیہ کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔اگر کسی بھی ملک کےلیے اپنا بیانیہ اہم نہیں ہوتا تو ماضی میں برطانوی بیانیہ کے ہوتے ہوئے امریکیوں کو امریکن بیانیہ کی ضرورت پیش نہ آتی۔دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ کسی ملک نے کسی غیر ملکی زبان میں ترقی کی ہو۔پاکستان میں کئی بولیاں اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔اور ہر بولی یا زبان ایک ثقافت کا حامل ہے۔اور جب خطے آپس میں ایک دوسرے سے جڑنا چاہیں،قریب ہونا چاہیں تو وہیں سے تہذیبی عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران تہذیبی زبان کا کردار اہم ہوتا ہے اور پاکستان کے حوالے سے اردو تہذیبی زبان ہے جس کے زریعے خطوں میں آپس میں جوڑا جاسکتا ہے گویا اردو اس ملک کی مرکزی زبان ہے۔
مری تہذیب بھی زندہ رہے گی
سدا اردو زباں کی چاشنی میں
ڈاکڑ شاداب احسانی اس ضمن میں امریکہ کی مثال دے کر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بیانیہ کے بغیر کا عرصہ کسی بھی ملک کے لیے dark ages کی مانند ہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں " 1770 میں امریکن شاعر جان ٹرم بُل نے فائن آرٹ پر نظم لکھتے ہوئے اظہار کیا کہ ہم برطانوی بیانیے کو مسترد کرتے ہیں ،اب ہمارے ہاں ملٹن اور شیکسپیئر پیدا ہونگے •••••••ہم نے دیکھا کہ بیانیے کا کمال تھا شاعر اور شاعری کا کمال تھا کہ 1776 میں امریکہ آزاد ہوا اور آج دنیا جانتی ہے کہ امریکن انگریزی بھی ہے اور در اصل یہی امریکن بیانیہ ہے جس سے اسے حقیقی آزادی اور ترقی ملی۔
قارئیں کرام ! اردو کسی خطے کی زبان نہیں ہے۔یہ تمام تر تعصبات اور گروہی اختلافات کو ختم کرنے والی زبان ہے۔اردو سے جڑ کر پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی کرسکتا ہے۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار ہوش کے ناخن لیں اور غیر ملکی زبان کو پاکستان پر مسلط کرنے کے بجائے قومی زبان کی بحالی کےلیے اقدامات کریں تاکہ پاکستانیوں کی احساس محرومی کا ازالہ ممکن ہو سکے۔آئیے 1973 کے دفعہ 251 کی بحالی کےلیے تحریک چلائیں۔اور 8ستمبر 2015 جسٹس ایس خواجہ کے اعلیٰ عدالتی حکم نامے پر عمل کرکے سچے پاکستانی ہونے،محب وطن اور قومی زبان سے محبت کا ثبوت دیں۔واضح رہیں کہ قومی بیانیہ کے بغیر ہماری کاوشیں اپنے ملک کےلیے نہیں بلکہ ان کےلیے ہیں جو ہمارے خیر خواہ نہیں۔اردو کے بغیر ہماری کاوشیں رائگاں ہیں۔ملی تشخص،ملی وحدت اور حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اردو کو نافذ کریں۔ اردوکے بغیر ہماری مثال یوں ہے بقول جون ایلیا کہ
ہم عجب ہیں کہ اس کے کوچے میں
بے سبب دھوم دھام کررہے ہیں
0 Comments